کرم میں آمدورفت کے راستوں کی طویل بندش کے خلاف احتجاج اتوار کو بھی جاری رہا، پاراچنار پریس کلب کے باہر دھرنا دے کر مکینوں نے سردی کی شدت کو برداشت کیا۔
مخیر حضرات فیصل ایدھی کا کہنا تھا کہ ہسپتالوں اور دیگر مراکز صحت میں طبی سہولیات کی کمی کے باعث 50 بچے ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ آزاد ذرائع نے بتایا کہ یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔
مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے تحصیل کونسل کے چیئرمین آغا مزمل حسین نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاراچنار اور گردونواح کے لوگ سڑکوں کی بندش کی وجہ سے محصور ہو کر رہ گئے ہیں اور اشیائے خوردونوش اور ادویات کی شدید قلت نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔
انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "محصور شہریوں کو غیر مسلح کرنے پر تلی ہوئی ہے"، انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کے اقدامات "معصوم لوگوں کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے مترادف ہیں۔ ہم ایسی پالیسیوں کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کر سکتے۔ ایم پی اے علی ہادی عرفانی نے بھی حکومت کو "غیر ضروری فیصلے" کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا اور عوامی تحفظ اور امدادی کوششوں کو یقینی بنانے کے لیے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے فیصل ایدھی کے اقدامات کی تعریف کی اور حکومت پر زور دیا کہ وہ بحران کو کم کرنے کے لیے مزید موثر اقدامات کرے۔ فیصل ایدھی نے مریضوں کو پاراچنار سے پشاور لے جانے اور محصور علاقے میں ادویات واپس لانے کے لیے ایئر ایمبولینس سروس کا آغاز کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ علاج کی سہولتوں کی عدم دستیابی کے باعث مقامی ہسپتالوں میں 50 سے زائد بچے جاں بحق ہو چکے ہیں، شہریوں کو خوراک کی شدید قلت کا بھی سامنا ہے، ریستوراں، تندور اور دیگر دکانیں سامان کی عدم دستیابی کی وجہ سے بند ہیں۔ کھانے پکانے کا تیل، گیس اور دیگر ضروری اشیاء کی قلت برقرار ہے، جس سے خاندانوں کو زندہ رہنے کی جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے حکام کا کہنا ہے کہ سڑکیں کھولنے اور دیگر اقدامات کے لیے بات چیت جاری ہے، جبکہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے علاقے میں ادویات پہنچائی جا رہی ہیں اور مریضوں کو پشاور لے جایا جا رہا ہے۔